سوال ١٥: دعوت کے آداب کیا ہے؟
جواب: جب کسی دعوت میں جانے کا اتفاق ہو تو کسی دوسرے شخص کو اپنے ساتھ نہ لے جااگر خدمت گار ساتھ ہو تو اس کو مجلس میں اپنے برابر نہ بٹھائے مگر جب کہ میزبان ناراض نہ ہو ۔ اگرچہ لوگ راستے میں باتیں کرتے ہوئے ساتھ ہو لیں تو مکان دعوت کے دروازے پر ان سب کو رخصت کرے اگر کسی کو اپنے ساتھ اندر لے بھی جائے تو میزبان سے اطلاع کردے کہ ایک شخص کو میں خود لایا ہوں یا وہ خود آیا ہے اگر آپ کی اجازت ہو تو شریک طعام کیا جائے پھر جب میزبان اجازت نہ دے تو برا نہ مانے اس اجازت میں کئی فائدے ہیں۔ اول یہ کہ حدیث شریف میں آیا ہے کہ جو شخص بغیر بلائے ضیافت میں گیا اس کا جانا چوری کے ساتھ اور واپس آنا غارتگری کے ساتھ ہے دوسری بات یہ ہے کہ میزبان نے چند گنتی کے آدمیوں کی دعوت کی ہے اب یہ جو مفت کے مہمان لے جائے گا تو اس غریب کو ناحق شرمندگی ہوگی تیسرے یہ کہ میزبان نے اپنے ہم مشروب و مذاق لوگوں کو مدعو کیا ہے اس اجنبی کی شرکت سے ان کے ذوق میں فرق پڑے گا جب تک اور لوگ نہ کھائے لقمہ اٹھانے میں سبقت نہ کرے۔کھانے کی بیٹھک یہ ہے کہ دایاں پیر کھڑا رکھے اور بائیں پیر کو بچھا کر اس کے اوپر بیٹھے یہی نشست سنت ہے مگر مشائخ و بزرگان کے سامنے باادب بیٹھنا چاہیے۔صوفیوں کے کھانے کا وقت بعد نماز عشاء اور قریب زوال کے مناسب اور حکیمانہ کام ہے وہ وقت سے تیسرے وقت کھانا نہیں چاہیے اور کھائے اتنا جتنا کہ لوگ تیسرے وقت کھاتے ہیں یعنی مختصر طور سے۔مجلس طعام سے رخصت ہونے کے وقت میزبان سے مصافحہ کرکے مختصر الفاظ میں کھانے کا شکریہ ادا کرے کھانے کے شکریہ کو صوفی مزد دندان کہتے ہیں یعنی کسی کا کھانا مفت نہیں کھاتے بلکہ اس کا شکریہ ادا کرتے ہیں آدمی میں ایسی ہی غیرت ہونی چاہیے۔کھانے کا عیب و ہنر باورچی سے ضرور بیان کرے تاکہ اس کو تنبیہ ہو اور آئندہ خراب کھانا پکا کرمال ضائع نہ کرے۔جوان مرد اور کشادہ دل آدمی کی دعوت قبول کرے بخیل کی دعوت ہرگز قبول کرنی نہیں چاہیے ۔کسی حیلہ بہانہ سے ٹال دینا چاہیے۔