top of page

سوال ١٣: ابن عربی رحمتہ اللہ تعالی علیہ کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟

جواب: شیخ ابن عربی عربی رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے ایسی گفتگو کی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ عالم غیب کو چھوڑ کر عالم شہادت ہی سے راضی تھے اور ان موجودات کے علاوہ وہ کسی اور موجود کا وجود نہ سمجھتے تھے ان تمام صورو اشکال کو وہ اسی کی صورت و اشکال کہتے ہیں اور وراء الورء سے شعور بھی نہیں رکھتے خدا وند تعالیٰ سب سے وراء الورء ہے بس خوب سمجھو اور غنیمت جانو اگر تم ان لوگوں میں سے ہو اگر ابن عربی میرے زمانے میں ہوتے میں ان کو شواہد سے چھڑا کر بالا تر لے جاتا اور وراء الورء کانظارہ دکھاتا اس وقت وہ نئے سرے سے مسلمان ہوتے اگر یہ میرا بیان خلاف حق و حقیقت ہے تو دوستان خدا کا ہاتھ اور میرا دامن ۔

سوال ١٤: مرید کو کھانا کھاتے وقت ذکر کرنا چاہیے یا خاموشی کے ساتھ کھانا چاہیے؟

جواب: مرید کھانا کھاتے وقت لا الہ الا اللہ کا ذکر یا اور کوئی ذکر کرتا رہے تاکہ
اذ یبو اطعامکم بذکر اللّہ تعالی کا مصداق بنے کھانے کے ہر لقمہ اور پانی کے ہر گھونٹ پر بسم اللہ پڑھتا جائے ۔بعض بزرگان ہر لقمہ و ہر گھونٹ پر بسم اللہ مع فاتحہ کے پڑھتے تھے یہ تعجب کی بات نہیں ہے جتنی دیر میں لقمہ اٹھایاچبایا و نگلا جاتا ہے اتنی دیر میں سورہ فاتحہ پڑھ سکتے ہیں ہاں جو بزرگان ہر لقمہ پر ختم قرآن شریف کر تے ہیں یہ ان کی کرامت میں داخل ہے ہر شخص ایسا نہیں کر سکتا۔

سوال ١٥: دعوت کے آداب کیا ہے؟

جواب: جب کسی دعوت میں جانے کا اتفاق ہو تو کسی دوسرے شخص کو اپنے ساتھ نہ لے جااگر خدمت گار ساتھ ہو تو اس کو مجلس میں اپنے برابر نہ بٹھائے مگر جب کہ میزبان ناراض نہ ہو ۔ اگرچہ لوگ راستے میں باتیں کرتے ہوئے ساتھ ہو لیں تو مکان دعوت کے دروازے پر ان سب کو رخصت کرے اگر کسی کو اپنے ساتھ اندر لے بھی جائے تو میزبان سے اطلاع کردے کہ ایک شخص کو میں خود لایا ہوں یا وہ خود آیا ہے اگر آپ کی اجازت ہو تو شریک طعام کیا جائے پھر جب میزبان اجازت نہ دے تو برا نہ مانے اس اجازت میں کئی فائدے ہیں۔ اول یہ کہ حدیث شریف میں آیا ہے کہ جو شخص بغیر بلائے ضیافت میں گیا اس کا جانا چوری کے ساتھ اور واپس آنا غارتگری کے ساتھ ہے دوسری بات یہ ہے کہ میزبان نے چند گنتی کے آدمیوں کی دعوت کی ہے اب یہ جو مفت کے مہمان لے جائے گا تو اس غریب کو ناحق شرمندگی ہوگی تیسرے یہ کہ میزبان نے اپنے ہم مشروب و مذاق لوگوں کو مدعو کیا ہے اس اجنبی کی شرکت سے ان کے ذوق میں فرق پڑے گا جب تک اور لوگ نہ کھائے لقمہ اٹھانے میں سبقت نہ کرے۔کھانے کی بیٹھک یہ ہے کہ دایاں پیر کھڑا رکھے اور بائیں پیر کو بچھا کر اس کے اوپر بیٹھے یہی نشست سنت ہے مگر مشائخ و بزرگان کے سامنے باادب بیٹھنا چاہیے۔صوفیوں کے کھانے کا وقت بعد نماز عشاء اور قریب زوال کے مناسب اور حکیمانہ کام ہے وہ وقت سے تیسرے وقت کھانا نہیں چاہیے اور کھائے اتنا جتنا کہ لوگ تیسرے وقت کھاتے ہیں یعنی مختصر طور سے۔مجلس طعام سے رخصت ہونے کے وقت میزبان سے مصافحہ کرکے مختصر الفاظ میں کھانے کا شکریہ ادا کرے کھانے کے شکریہ کو صوفی مزد دندان کہتے ہیں یعنی کسی کا کھانا مفت نہیں کھاتے بلکہ اس کا شکریہ ادا کرتے ہیں آدمی میں ایسی ہی غیرت ہونی چاہیے۔کھانے کا عیب و ہنر باورچی سے ضرور بیان کرے تاکہ اس کو تنبیہ ہو اور آئندہ خراب کھانا پکا کرمال ضائع نہ کرے۔جوان مرد اور کشادہ دل آدمی کی دعوت قبول کرے بخیل کی دعوت ہرگز قبول کرنی نہیں چاہیے ۔کسی حیلہ بہانہ سے ٹال دینا چاہیے۔

سوال ١٦: جو راہ تصوف میں مبتدی قدم رکھے اس کے لیے کیا ضروری ہے؟

جواب: مبتدی کے لئے مقدم یہ ہے کہ مرشد ہادی کی تلاش و جستجو کرے ۔مرشد دو قسم کے ہوتے ہیں ایک ہادی اور ایک منذر (مُنْذِر) عربی۔ (آنے والی ساعت ہے) ڈرانے والا متنبہ کرنے والا، مستقبل کے خطرات سے آگاہ کرنے والا، (عذاب الٰہی کا) خوف دلانے والا (خصوصاً پیغمبر)۔
ان دونوں میں تمیز کرنی بہت مشکل ہے کیونکہ دونوں وعظ و نصیحت کرتے ہیں اور نصیحت میں ہدایت بھی ہے اور انداز بھی۔

سوال ١٧: راہ سلوک میں چلنے والے طالب کے لئے کیا شرائط ہے؟

جواب: بغیر دیدا و معرفت کے محبت فضول ہے اصل محبت وہی ہے جو معرفت و دیدار کے بعد پیدا ہو۔ طالب ہر ایک راستہ سے محبوب کو تلاش کرے کیونکہ اس کو معلوم نہیں کدھر سے جلد پہنچے گا۔
12)سورۃ یوسف : (67
لَا تَدخُلُوا مِن بَابٍ وَّاحِدٍ وَّ ادخُلُوا مِن اَبوَابٍ مُّتَفَرِّقَۃٍ
تم سب ایک دروازے سے نہ جانا بلکہ کئی جدا جدا دروازوں میں سے داخل ہونا۔ یوسف کو ہر ایک دروازے سے تلاش کرنا چاہیے طالب کو خاموش نہیں بیٹھنا چاہیے بلکہ ہر وقت کوشش کرتا ر ہے۔

سوال ١٨: اس محبت کا کیا مقام ہے جس میں دیدار و معرفت نہ ہو؟

جواب: بغیر دیدا و معرفت کے محبت فضول ہے اصل محبت وہی ہے جو معرفت و دیدار کے بعد پیدا ہو۔ طالب ہر ایک راستہ سے محبوب کو تلاش کرے کیونکہ اس کو معلوم نہیں کدھر سے جلد پہنچے گا۔
12)سورۃ یوسف : (67
لَا تَدخُلُوا مِن بَابٍ وَّاحِدٍ وَّ ادخُلُوا مِن اَبوَابٍ مُّتَفَرِّقَۃٍ
تم سب ایک دروازے سے نہ جانا بلکہ کئی جدا جدا دروازوں میں سے داخل ہونا۔ یوسف کو ہر ایک دروازے سے تلاش کرنا چاہیے طالب کو خاموش نہیں بیٹھنا چاہیے بلکہ ہر وقت کوشش کرتا ر ہے۔

سوال ١٩: عاشق معشوق سے کیوں محبت کرتا ہے؟

جواب: اگر عا شق عشق میں سرشار ہے تو کوئی جواب نہیں دے گا اگر جواب دے گا بھی تو یہی دے گا کہ میں نہیں جانتا۔ محبت ایک راز ہے جو عاشق و معشوق کے درمیان ہوتا ہے۔
میان عاشق و معشوق رمزیست
کرامً کاتبین راہم خبر نیست
یعنی عاشق و معشوق کے درمیان ایسا بھی راز ہوتا ہے جس کی خبر کرامً کاتبین کو بھی نہیں ہوتی ہے۔
محبت گونگے کے منہ میں گڑ کی طرح ہیں گو نگا کھا تو سکتا ہے لیکن بتا نہیں سکتا کہ اس کی لذت کیا ہے۔ محبت پھولوں کی خوشبو کی طرح ہے کہ آپ سونگھ تو سکتے ہیں مگر اس کو دوسروں کو کو بتا نہیں سکتے۔
ہرچیز ہم کو دماغ کے ذریعے سمجھ میں آتی ہے مگر محبت دماغ کے دائرے کے باہر ہے۔ دماغ اس کو محسوس نہیں کر سکتا نہ جان سکتا ہے اور جو چیز دماغ کے دائرے کے باہر ہو اسے ہی راز کہا جاتا ہے اور اس کے معنی ہے جو سمجھنے کے بعد بھی جو جاننے کے بعد بھی انجانا رہ جائے۔ دماغ کی زبان لفظ ہے اور دل کی زبان احساس ہے اورکچھ احساس ایسے ہوتے ہیں جن کو کبھی کبھی لفظوں میں بیان کرنا مشکل ہوتا ہے اور محبت بھی انہیں احساسوں میں سے ہے۔

سوال ٢٠: کس عمر میں مرید بننا چاہیے؟

جواب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالی عنہ کو سات سال کی عمر میں بعیت فرمایا۔ بچے میں جب شعور بیدار ہونے لگے جب سے لے کر چالیس سال کی عمر تک مرید ہونے کا اچھا وقت ہے۔اگر ان دنوں میں اچھی طرح مجاہدہ کرے گا تو جلد کامیاب ہوگا بڑھاپے میں اگر اس طرف متوجہ ہوا تو ایسے فریب المرگ کو کیا حضور حاصل ہوسکتا ہے مگر پھر بھی نیکیوں کے سبب سے جنت میں درجات بلند ہونگے مطلب یہ ہے کہ جوانی کی عمر میں یہ کام بڑی خوبی سے انجام پاتا ہے خدا توفیق دے تو پوری ہمت اس طرف متوجہ کرے۔

سوال ٢١: ستر اسی سال کا بوڑھا آدمی اگر راہ تصوف میں آتا ہے تو کیا وہ کامیاب ہوگا؟

جواب: اس عمر کا بوڑھا آدمی ناسخت ریاضت کر سکتا ہے نا سخت مجاہدہ کر سکتا ہے بلکہ اس کو یہ ضرورت ہے کہ کوئی شخص اس کی خدمت کیا کرے لہذا اس کے لئے یہی کافی ہے کہ یہ پانچوں وقت نمازباجماعت ادا کرے ورد وظائف پڑھے اورخلوت میں بیٹھ کر آنکھیں اور منہ بند کرے اور مراقبہ میں مشغول ہو۔ مشغولی کا جو طریقہ پیر بتائے اس پر عمل کرے اگر اس کے دل میں پیر کی محبت ہے تو ضرور کچھ نہ کچھ حاصل ہو جائے گا۔

سوال ١٠: پیر کی خدمت میں کیا سمجھ کے خرچ کرنا چاہیے؟

جواب: پیر کی خدمت میں جو کچھ خرچ کرے اس کا شکریہ بجالائے اور پیر کا اپنے اوپر احسان سمجھے کہ اس کو قبول فرمایا -

سوال ١١: طریقت میں کم کھانے پر زور دیا جاتا ہے تو مرید کس طرح سے اپنی خوراک کو کم کریں جس سے اس میں کمزوری بھی نہ آئے؟

جواب: کم کھانے کی عادت ڈالنے کا طریقہ یہ ہیکہ اگر کوئی شخص ایک خوراک کھاتا ہو تو وہ ایک سیرچنے تول کر رکھ لے پھر ہر روز ان چنوں میں سے ایک چنا کم کرے ان کے ساتھ اپنی خوراک کا آٹا یا چاول وزن کر لیا کرے اس تدبیر سے سال بھر میں 360 چنوں کی برابر خوراک کم ہو جائے گی اور کسی قسم کی کمزوری بھی پیدا نہ ہو گی۔

سوال ١٢: کیا صوفیاء کرام کو اعتکاف کرنا چاہیے؟

جواب: صوفیاء کرام اعتکاف کی بڑی رعایت فرماتے ہیں بعض نے چالیس روز کا اور بعض نے تین چلوں کا اعتکاف اختیار کیا بعض نے رمضان کے آخری عشرے کا اعتکاف ہی کافی سمجھا۔
اعتکاف کی تین قسمیں ہیں ۔
ایک اعتکاف معین جو سب کو معلوم ہے اور عام لوگ اعتکاف کرتے ہیں دوسرا اعتکاف دوام جو ہر وقت معتکف ہے تیسرا اعتکاف دل یعنی اہل دل اپنے خانہ دل کے اندر اعتکاف کرتے ہیں یا یوں کہیے کہ یہ جودل ہمارے پاس ہے ہم اپنے دل سے اس دل پر اعتکاف کرتے ہیں۔

bottom of page