top of page

دعوتِ فکر دعوتِ ایمان

بِسْمِ ٱللَّٰهِ ٱلرَّحْمَٰنِ ٱلرَّحِيمِ

ایمان کیا ہے؟ اور ایمان کس کو کہتے ہیں؟

اہل سنت والجماعت اس بات پر متفق ہیں اور یک زبان ہیں کہ

الْإِیمَانُ إِقْرَارٌ بِاللِّسَانِ وَ تَصْدِیقٌ بِالْجَنَانِ وَعَمَلٌ بِالاَرُ کَانِ

ترجمہ: کلمہ طیب کا زبان سے اقرر دل سے تصدیق اور اعضاء کے ساتھ عمل ایمان ہے
قران و حدیث میں ان کی دلائل موجود ہے

زبانی اقرار:

کلمہ طیب لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ  پڑھنا ایمان کا رکن ہے، کلمہ پڑھے بغیر ایمان صحیح نہیں ہو گا۔

زبانی اقرار کے ایمان میں شامل ہونے کے چند دلائل درج ذیل ہیں: فرمانِ باری تعالی ہے:

قُولُوا آمَنَّا بِاللَّہِ

 ترجمہ: تم سب {زبان سے} کہہ دو: ہم اللہ پر ایمان لائے (البقرۃآیت: 136)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے اس وقت تک قتال کروں یہاں تک کہ وہ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کا اقرار نہ کر لے۔  (صحیح البخاری 2946 صحیح مسلم:125)

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ایمان کی 72 سے زائد یا 62 سے زائد شاخیں ہیں، ان میں سے افضل ترین زبان سے لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّه  کہنا ہے، اور سب سے نچلی شاخ راستے سے تکلیف دہ چیز دور کرنا ہے، اور حیا بھی ایمان کی شاخ ہے۔ (سنن ترمذی # 2614 سنن ابی داود # 4676)

قلبی قول:

اس سے مراد قلبی تصدیق اور یقین ہے، اس بات کی دلیل کہ قلبی تصدیق ایمان کا اہم حصہ ہے اللہ تعالی کا یہ فرمان ہے:

أُوْلَٰئِكَ كَتَبَ فِي قُلُوبِهِمُ الْإِيمَانَ

 ترجمہ: یہی لوگ ہیں جن کے دلوں میں اللہ تعالی نے ایمان لکھ دیا۔ (المجادلۃ آیت 22)

انس رضی اللہ عنہ سے سنا، کہا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قیامت کے دن میری شفاعت قبول کی جائے گی۔ میں کہوں گا: اے رب! جس کے دل میں رائی کے دانہ کے برابر بھی ایمان ہو اس کو بھی جنت میں داخل فرما دے۔ ایسے لوگ جنت میں داخل کر دئیے جائیں گے۔ میں پھر عرض کروں گا: اے رب! جنت میں اسے بھی داخل کر دے جس کے دل میں معمولی سا بھی ایمان ہو۔ انس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ گویا میں اس وقت بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی انگلیوں کی طرف دیکھ رہا ہوں۔  (صحیح البخاری 7509)

قلبی عمل:

چیزوں کے ایمان میں داخل ہونے کی دلیل فرمانِ باری تعالی ہے:

إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِینَ إِذَا ذُکِرَ اللَّہُ وَجِلَتْ قُلُوبُہُمْ

ترجمہ: یقیناً مومن تو وہ لوگ ہیں جب اللہ کا ذکر کیا جائے تو ان کے دل پگھل جاتے ہیں (الانفال8:2)

آیت کریمہ کا عربی لفظ { وَجِلَت} قلبی عمل کے لیے استعمال ہوتا ہے، جو اس بات کی دلیل ہے کہ قلبی عمل بھی ایمان کا حصہ ہے۔

 آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: میں تمہیں اللہ تعالی پر ایمان لانے کا حکم دیتا ہوں، اور کیا تم جانتے ہو اللہ پر ایمان کیا ہے؟ اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبودِ بر حق نہیں (صحیح البخاری# 7556)

حضور غوث پاک رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں:

تُعْتَقِدُ أَنَّ الْإِيمَانَ قَوْلٌ بِاللِّسَانِ وَمَعْرِفَةٌ بِالْجِنَانِ وَعَمَلٌ بِالْأَرْكَانِ، يَزِيدُ بِالطَّاعَةِ وَيَنْقُصُ بِالْعِصْيَانِ

اور یہ عقیدہ رکھو کہ ایمان زبان کے ساتھ اقرار دل کے ساتھ یقین اور ارکان کے ساتھ عمل کا نام ہے اطاعت سے زیادہ ہوتا ہے اور نافرمانی سے کم ہوتا ہے۔    (غنیۃ الطالبین 109/1) (غنیۃ الطالبین 109/1)

کلمہ طیبہ اسلام کا پہلا فرض ہے جو ہر مسلمان پر فرض ہے جس کو جاننا ضروری ہے۔ اس کو جانے بغیر نہ کوئی داخل اسلام ہو سکتا ہے نہ داخل ایمان ہو سکتا ہے۔

کلمہ طیب کی تحقیق و تصدیق بالقلب بغیر پیر کامل واکمل کے حاصل نہیں ہو سکتی۔  تصدیق بالقلب کے بغیر دل مردہ اور روح غافل رہتی ہے۔

ایمان کی اصل جڑ تصدیق بالقلب ہے زبان سے اقرار اور عملِ کثیر تو منافقین بھی کرتے تھے۔ خوش نصیب کو کلمہ طیبہ کی تصدیق حاصل ہو جاتی ہے اس کا قلب اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کہ نور سے جگمگا اٹھتا ہے اور اس کے بقیہ دونوں ارکان یعنی زبانی اقرار اور عمل کثیر بارگاہ خداوندِ قدّوس میں مقبولیت کا درجہ حاصل کر لیتے ہیں اور اس شخص کو ایمانِ کامل نصیب ہوتا ہے۔

اور جو غافلین محض زبانی اقرار و عمل کثیر کو ذریعہُِ نجات سمجھتے ہیں ان ناسمجھ حضرات کے لیے شاہین توکلی رحمۃ اللہ علیہ کا ایک شعر عرض کرتا ہوں

"گو لاکھ خود کو کوئی مسلمان جتائے  
قرآن و حدیث کا پیغام سنائے  
اسلام کا ہر ایک عمل کرکے دکھائے  
اس کلمہ طیب کی جو تصدیق نہ پائے  
واللہ کوئی صاحب ایمان نہیں وہ  
اللہ کے نزدیک مسلمان نہیں وہ"

مفہوم: اگرچہ کوئی شخص اسلام کا دعویٰ کرے، قرآن و حدیث کا پیغام پہنچائے اور ہر عبادت انجام دے، لیکن کلمہ طیبہ کی حقیقی تصدیق کے بغیر، اللہ کی قسم، وہ واقعی مؤمن نہیں۔ اللہ کی نظر میں وہ مسلمان شمار نہیں ہوتا۔

علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں 

"زبان سے کہہ بھی دیا لا الہ تو کیا حاصل  
دل و نگاہ مسلمان نہیں تو کچھ بھی نہیں"

مفہوم: اگر دل اور نظر اسلام کے ساتھ ہم آہنگ نہ ہوں تو پھر کچھ بھی حقیقی طور پر حاصل نہیں ہوتا۔

مَنْ قَالَ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ أَلْفَ مَرَّةٍ إِلَّا بِالتَّحْقِيقِ فَهُوَ كَافِرٌ

ترجمہ: جس۔ نے کلمہ طیب لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ کو بغیر تحقیق ہزار بار کہا وہ کافر ہے۔ (مصباح الحیات زاد الایمان ص: 180)

حضرت میر حیات رحمتہ اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں کہ  کلمہ طیبہ میں دو باتیں ہیں۔ ایک لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ  ے دوسری بات مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ ہے جو کوئی لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ ہزار بار پڑھے اورمُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ صدق دل سے نہ پڑھے وہ کافر ہے۔ اس واسطے ہر ایک پر فرض ہے کہ ان باتوں کو دل میں ثابت کرنا اور برحق جاننا، جو حقیقت میں صدق دل سے لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ  پڑھتا ہے وہ مومن برحق ہوتا ہے جو کوئی ان باتوں کو برحق نہ جانے وہ کافر ہے اگر چہ کلمہ زبان سے پڑھتا ہے۔ (مصباح الحیات 72)

حضرت سلطان باہو رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں جس شخص کو تصدیقِ قلبی نہ ہو اسے صرف زبانی ورد کچھ فائدہ نہ دے گا۔

سرکار پیر عادل پیجاپور رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں.

"تحقیق نہیں تصدیق نہیں تلقین نہیں تو کیا حاصل  
مرشد سے سمجھ لے کلمے کو تیرا حشر اے ناداں کیا ہوگا"

مفہوم: تحقیق، تصدیق اور صحیح رہنمائی کے بغیر کیا فائدہ؟ کلمہ کسی روحانی رہنما سے سیکھو، اے نادان، تمہارا کیا بنے گا؟

ایک اور جگہ فرماتے ہیں

"تحقیق کر تصدیق کر کلمہ گو بن جائے گا  
جو سراپا کلمہ ہوگا وہ ولی کہلائے گا"

مفہوم: تحقیق کرو، تصدیق کرو اور کلمہ کا اقرار کرو؛ صرف وہی جو اس کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہیں، انہیں سچے اولیاء کہا جائے گا۔

"کافی نہیں اقرار ہی تصدیق کرو گے  
پیر فہمی سے راز کلمے کا پانا ہوگا"

 {حضرت معروف پیر مدظلہ العالی}

مفہوم: صرف اقرار کافی نہیں ہے؛ تمہیں اسے اپنے دل میں تصدیق کرنا ہوگا۔ کلمہ کی حقیقت کو اپنے روحانی رہنما سے سمجھو، کیونکہ صرف اسی وقت اس کے راز کھلیں گے۔

قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ كَانَ آخِرُ كَلَامِهِ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، دَخَلَ الْجَنَّةَ۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس کا آخری کلام لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ ہو گا وہ جنت میں داخل ہو گا۔ (سن ابو داؤد# 3116)

محض زبانی کلمہِ طیبہ کا اقرار وقتِ نزع وقتِ قضا ساتھ چھوڑ سکتا ہے مگر جن خوش نصیب مریدین کو ان کے مرشدِ کامل سے کلمہِ طیب کی لازوال دولت جو نعمت عظمٰی ہیں حاصل ہو چکی ہیں ان کو ہر وقت کلمہ نصیب ہوگا چاہے وہ جس عالم میں بھی ہو۔

اور انہی کی بروزِ قیامت میں شفاعت بھی ہوگی۔

​نبی کریم روف و رحیم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں  قیامت میں سب سے زیادہ فیضیاب میری شفاعت سے وہ شخص ہو گا، جو صدق دل سے لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ  کی گواہی دے گا۔ (صحیح البخاری # 99/6507)

کلمہِ طیب کی تعلیم و تفہیم و عرفان کے لیے پیر ِکامل کی اشد ضرورت ہے جس کے بغیر نہ کلمے کا راز و نیاز حاصل ہوگا نہ کلمے کی تصدیق حاصل ہوگی۔ نہ ایمان قلب میں مقام کر سکتا ہے۔ 

قَالَتِ الْأَعْرَابُ آمَنَّا ۖ قُل لَّمْ تُؤْمِنُوا وَلَٰكِنْ قُولُوا أَسْلَمْنَا وَلَمَّا يَدْخُلِ الْإِيمَانُ فِي قُلُوبِكُمْ

دیہاتی لوگ کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے۔ آپ کہہ دیجئے کہ درحقیقت تم ایمان نہیں لائے لیکن تم یوں کہو کہ ہم اسلام لائے حالانکہ ابھی تک تمہارے دلوں میں ایمان داخل ہی نہیں ہوا (سورۃ الحجرات -آیت14)

  ہر فرد کو دعوتِ فکر و دعوت ایمان دی جا رہی ہے کہ وہ مرشدِ کامل کے دامن سے وابستہ ہو کر کلمہِ طیبہ کی لازوال دولت سے مالا مال ہو جائے۔  اور اپنی روح کو اپنے دل کو کلمے کے نور سے پرنور کر لے اور ولایت کے اعلی مراتب حاصل کریں۔

مَن يَهْدِ اللَّهُ فَهُوَ الْمُهْتَدِ وَمَن يُضْلِلْ فَلَنْ تَجِدَ لَهُ وَلِيًّا مُرْشِدًا

جسے اللہ ہدایت فرما دے سو وہی ہدایت یافتہ ہے، اور جسے وہ گمراہ ٹھہرا دے تو آپ اس کے لئے کوئی ولی مرشد (یعنی راہ دکھانے والا مددگار) نہیں پائیں گے (سورۃ الکہف آیت 17)

  بالاخر سرکار پیر عادل بیجا پوری رحمتہ اللہ علیہ کے اس شعر پر میں اپنی بات تمام کرتا ہوں کہ 

"یہ نعمت کلمہ پائے وہی تحریر ازل میں تھا جس کے  
کہلائے وہی محبوب خدا یہ خاص ہے نعمت عام نہیں"

مفہوم: کلمہ کی برکت صرف انہی کو ملتی ہے جو اس کے لیے مقدر ہیں۔ وہ اللہ کے محبوب ہیں، جو ایک منفرد فضل سے نوازے جاتے ہیں، جو سب کو نہیں ملتا۔

وَمَا عَلَيْنَا إِلَّا الْبَلَاغُ الْمُبِينُ

اور ہمارے ذمے تو صاف صاف پہنچا دینا ہے۔“ (سورة   يٰسٓ 36:17)

الداعی:

نورِ نگاہِ پیر فہمی حضرت خواجہ صوفی شیخ محمد فاروق شاہ قادری الچشتی عادل فہمی نوازی معروف پیر مدظلہ العالی

bottom of page