آج کا بیان ایک سوال پر ہے۔
کیا پیر بھی استاد یا معلّم کی طرح ہی ہوتے ہیں؟
میرے پیر و مرشد خواجہ شیخ محمد فاروق شاہ قادری الچشتی عادل فہمی نوازی معروف پیر مدظلہ العالی اپنی مشہور و معروف کتاب نسابِ تصوف میں اس کا جواب دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ
کچھ لوگ جو ناسمجھ ہوتے ہیں، وہ پیر کو بھی ایک استاد یا معلّم کی طرح سمجھتے ہیں۔ مگر ہمارے خواجگانِ چشت کا یہ طریقہ نہیں۔ ہمارے یہاں مرید عاشق اور پیر معشوق ہے۔ ہم پیر کے برابر بھی کسی کو نہیں سمجھتے۔ پیر سے بہتر سمجھنا تو بہت دور کی بات ہے۔ ہم ہرگز نہ کہیں گے کہ جنید اور بایزید ہمارے پیر سے بڑھ کر تھے۔ ہمارا تو یہ عقیدہ ہے کہ ہم نے پیر اور نبی و اللہ کو ایک دیکھا اور ایک جانا ہے۔
حضرت مولانا رومی رحمت اللہ علیہ فرماتے ہیں:
"ہر کہ پیر و ذاتِ حق را یک نہ دید،
نے مرید و نے مرید و نے مرید۔"
یعنی
جس نے پیر کی ذات کو حق کی ذات نہیں سمجھا،
وہ مرید نہیں مرید نہیں مرید نہیں۔
آئیے آپ کے اس جواب میں سے کچھ خاص نکات پر غور کرتے ہیں۔
پہلی بات آپ نے صاف الفاظ میں کہ دیا کہ پیر کو استاد یا معلّم سمجھنے والے ناسمجھ ہیں۔ یعنی انہیں پیر کے مقام کے بارے میں کچھ بھی خبر نہیں ہے۔ ان کا ایک دوسرے سے کوئی مقابلہ ہی نہیں ہے۔ یاد رہے استاد یا معلّم کی اپنی اہمیت ہے پر پیر کو استاد یا معلّم نہیں کہا جا سکتا ہے۔ پیر استاد یا معلّم سے بہت اونچا مرتبہ رکھتے ہیں۔ جہاں استاد یا معلّم آپ کے نفس کی تعلیم تربیت کرتے ہیں تو وہیں پیر آپ کی روحانی تربیت کرتے ہیں۔ ان شاء اللہ جیسے میں آگے آپ کو پیر کی اہمیت سمجھاؤں گا تو آپ آسانی سے استاد یا معلّم اور پیر میں فرق سمجھ جائیں گے۔
دوسری بات آپ نے پیر کی اہمیت کو سمجھاتے ہوئے کہا ہے کہ ہمارے یہاں مرید عاشق اور پیر معشوق ہوتا ہے۔ یعنی یہ عشق کا معاملہ ہے اور عشق میں عاشق کے لیے اس کا معشوق سب سے بڑھ کر اہمیت اور سب سے اونچا مقام رکھتا ہے۔ اور پھر عاشق کب کسی کو اپنے معشوق کے برابر سمجھتا ہے۔ پھر کسی کا صنم کتنا ہی حسین و جمیل کیوں نہ ہو عاشق اپنے معشوق کے سامنے کسی کو بڑھ کر نہیں سمجھتا ہے۔ اسی لیے تو آپ فرماتے ہیں کہ ہم ہرگز نہ کہیں گے کہ جنید اور بایزید ہمارے پیر سے بڑھ کر تھے۔
تیسری سب سے اہم بات کو سمجھئیے۔
حضرت مولانا رومی رحمت اللہ علیہ کو آج کون نہیں جانتا ہے؟ آپ کیسے ایک عالم سے اللہ کے ولی بن گئے۔ آپ فرماتے ہیں کہ
"بے جوز از شمس تبریزی نبود
در خورشِ چشمِ من اندر دو جہان"
یعنی شمس تبریزی (رحمت اللہ علیہ) کے سوا، دو جہانوں میں کوئی بھی میری نگاہ کے قابل نہیں تھا۔
یہ اشعار مولانا رومی رحمت اللہ علیہ کی شمس تبریزی رحمت اللہ علیہ کے لیے گہری عقیدت اور محبت کو ظاہر کرتے ہیں، اور یہ بتاتے ہیں کہ شمس تبریزی رحمت اللہ علیہ ہی وہ واحد شخصیت تھے جو روحانی اور مادی دونوں جہانوں میں ان کے لیے اہمیت رکھتے تھے۔
پھر ایک جگہ آپ کہتے ہیں کہ
"مولوی ہرگز نہ شد مولاے روم
تا غلامِ شمس تبریزی نہ شد"
یعنی مولوی کبھی بھی مولاے روم نہیں بن سکتا تھا جب تک وہ شمس تبریزی (رحمت اللہ علیہ) کا غلام نہیں بن جائے۔ اس کا مطلب ہے کہ کوئی عالم (مولوی) حقیقی روحانی استاد یعنی مولاے رومی کا مقام نہیں پا سکتا جب تک کہ وہ شمسِ تبریزی رحمت اللہ علیہ کا مخلص غلام نہ بن جائے۔ یعنی اگر ہمیں شمسِ تبریزی رحمت اللہ علیہ کی رہنمائی سے ہونے والی تبدیلی کے اثر اور روحانی نور کو حاصل کرنا ہے تو مولانا رومی رحمت اللہ علیہ کے جیسی سچی تسلیمیت کی ضرورت ہوگی۔ ہم نے سنا ہے کہ اگر کچھ پانا ہے تو کچھ کھونا پڑتا ہے تو میرے رہبرِ کامل سرکار معروف پیر مدظلہ العالی کہتے ہیں کہ اگر سب پانا ہے تو سب کھونا پڑتا ہے۔
پھر ایک جگہ آپ کہتے ہیں کہ
"ہر کہ پیر و ذاتِ حق را یک نہ دید،
نے مرید و نے مرید و نے مرید۔"
یعنی
جس نے پیر کی ذات کو حق کی ذات نہیں سمجھا،
وہ مرید نہیں مرید نہیں مرید نہیں۔
حضرت مولانا رومی رحمت اللہ علیہ صاف الفاظ میں فرماتے ہیں کہ وہ مرید ہی نہیں ہے جس نے اپنے پیر اور حق کی ذات کو ایک نہ دیکھا۔ ہم اپنے پیر، نبی اور اللہ کو ایک دیکھتے اور ایک جانتے ہیں۔
امید کرتا ہوں کہ آج کا بیان آپ کو سمجھ آیا ہوگا اور آپ کے دل میں اپنے پیر کے لیے عشق اور بڑھ گیا ہوگا۔ عشق اور ادب دو پر ہیں جن سے مرید روحانی ترقی کی اڑان بھرتا ہے۔ اس راہِ طریقت میں عشق و ادب سے اپنے پیر کا دامن تھامے رکھے۔
Comments